ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ان کا ملک شام میں جاری خانہ جنگی کے حل کے لیے امریکہ اور سعودی عرب کے ساتھ بات چیت پر آمادہ ہے۔
منگل کو تہران میں آسٹریا کے صدر ہینز فشر کے ساتھ ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے صدر روحانی نے کہا کہ اگر سعودی عرب اور امریکہ کے ساتھ بات چیت کے نتیجے میں شام میں قیامِ امن اور جمہوریت کا حصول ممکن ہو سکتا ہے تووہ اس بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر بات چیت کا نتیجہ ایک محفوظ، مستحکم اور جمہوری شام کی صورت میں نکلنے کی امید ہو تو ایران خطے کے ملکوں کے علاوہ بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ بھی بات چیت کے لیے آمادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ شام میں قیامِ امن کے لیے بات چیت پر آمادگی ایران کی "بین الاقوامی، اسلامی اور انسانی روایات" سے وابستگی کا اظہار ہے۔
ایران شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کا سب سے بڑا
اتحادی ہے جو گزشتہ ساڑھے چار برسوں سے جاری خانہ جنگی کے دوران اسد حکومت کو ہر ممکن سفارتی، مالی اور فوجی مدد فراہم کرتا رہا ہے۔
مغربی ملکوں اور ذرائع ابلاغ الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ ایرانی فوج 'پاسدارانِ انقلاب' کے دستے شام میں صدر اسد کی حامی فوج کے ساتھ مل کر سنی باغیوں کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں لیکن ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
جواباً ایران کی شیعہ حکومت خطے میں اپنے سب سے بڑے حریف سعودی عرب اور امریکہ کو صدر اسد کے مخالف باغیوں اور جنگجووں کو مدد فراہم کرکے شام کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کرتی ہے۔
ایران کے فوجی افسران شام میں شدت پسند تنظیم داعش کےخلاف کارروائیوں میں بھی شامی فوجی دستوں کو تیکنیکی اور تربیتی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔
منگل کو پریس کانفرنس میں ایرانی صدر نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ شامی حزبِ اختلاف کی جانب سے صدر اسد کی اقتدار سے بے دخلی جیسے مطالبات کے بجائے شام میں جاری خون ریزی روکنے پر توجہ مرکوز کرے۔